ہمارا معاشرہ بھی اس زمانہ جاہلیت کے ظالم معاشرے سے جا ملتا ہے جو معاشرہ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتا تھا جب بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ ظالم معاشرہ بیٹی کو صرف اور صرف بیٹی ہونے کے جرم میں دفن کرتا تھا کہ یہ بیٹی کیوں پیدا ہوئی میرے دوست مجھے کیا بولیں گے جب میں انہیں بتائوں گا کہ آج میری بیٹی پیدا ہوئی اسی طرح ہمارا معاشرہ بھی بیٹی کی پیدائش پر بھی کچھ اسی طرح ہوتا ہے پہلی بات اگر کسی کی بیٹی پیدا ہو تو کوئی مبارکباد نہیں دیتا کہ ماشاء اللہ مبارک ہو آپ کو بیٹی پیدا ہوئی ہے دوسری بات اگر کوئی مبارکباد بھی دے تو کوئی جواب نہیں آتا کہ خیر مبارک اگر کوئی جواب بھی بالفرض دے تو ہنس کر نہیں دیتا جس طرح بیٹے کی پیدائش پر ماحول ہوتا ہے نہ جانے کیوں یہ معاشرہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا ہے حالانکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے بیٹیوں کے والدین کے لیے بڑی خوشخبری سنائی جو شاید کسی اور کو ملی ہو حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس کے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئی اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے پھر شادی کروائے تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا فرمایا اگر دو بیٹیاں ہوں تو پھر بولا ہاں دو والا بھی فرمایا اگر ایک ہو تو فرمایا ہاں ایک والے کے لیے بھی تو پھر یہ معاشرہ کیوں بوجھ سمجھتا ہے اگر کوئی اس ظالم معاشرے میں بیٹی کی تربیت کرنے کے بعد شادی کرواتا ہے پھر اگر اس کے پاس بیٹی پیدا ہوتی ہے تو کبھی کبھی تو بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے ان کو طلاق بھی مل جاتی ہے نہ جانے کیا جرم بیٹیوں کا کہ ان کو اتنا بھی بوجھ سمجھا جاتا ہے بیٹیاں جتنی والدین سے وفائیں کرتے ہیں شاید بیٹے کرتے ہوں وہ والدین کا گھر چھوڑ کر بھی ان کی فکر میں رہتی ہیں کہ آج ابا جان کی طبیعت کیسی ہے امی کیسے ہی بھائیوں کا کیا حال ہیں یہ سب فکر بیٹیوں کے دل میں ہوتی ہے خدارا اپنی بیٹیوں کو اہمیت دیں وہ تو زندگی بھر بس آپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہیں اللہ تعالیٰ تمام والدین کو بیٹیوں کی عزت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے عبدالقدیر درس