ایمان کی نعمت

ایمان کی نعمت

March 8, 2022 2 years ago 1 Comment

قدرت الٰہی نے مختلف انسانوں کو مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جتنی مشقت ایک عام مزدور برداشت کر سکتا ہے اتنی مشقت پڑھا لکھا صحت مند نوجوان نہیں کر سکتا۔ جو ڈاکٹر میں خوبیاں ہیں وہ انجینئر میں نہیں ہو سکتیں۔ جن تحقیقی امور میں سائنسدان کو عبور حاصل ہے-

 

ہے وہ سیاست دانوں میں موجود نہیں ہوسکتا۔ اس طرح سب ہی انسان کبھی بھی ایک لیول پر نہیں آسکتے۔ لیکن ﷲ تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ، اس پاک ذات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس میں غیر معمولی خوبیاں پیدا کی ہیں.

 

انسان اگر ایک طرف اپنے نفس کی پرستش میں درندہ صفت ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بروئے کار لاکر امن پسند اور بہترین انسان بھی بن سکتا ہے۔ ﷲ ربّ العزت نے انسان کو اچھے اور برے دونوں راستوں کی تمیز بھی بتائی ہے۔ برائی کے برے انجام اور اچھائی کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا ہے

 

کہ، اگر انسان اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے تو دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور نئی زندگی پائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر صد افسوس کہ، اسلام کی روشن تعلیمات اور خاتم النبین صلی ﷲ علیہ و سلم کی روشن ہدایات کے باوجود نہ جانے کیوں

 

کیوں ہم اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو بھول گئے ہیں۔ کیوں ہم نے اپنی زندگی سے حلال اور حرام کی تمیز ختم کردی۔ کیوں ہم اسلام کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اغیار کی ننگی تہذیب کے دلدادہ ، اور اپنے نفس کے غلام بن گئے۔ جبکہ ہمیں انسان بنا کر اچھے اور برے راستوں کی پہچان سجھا دی گئی ہے۔ تو ہم اچھے کاموں کو اپنانے اور برے کاموں کو ترک کرکے اعلیٰ انسان بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ کیوں ہمارے اندر بغض، کینہ، تعصب، حسد، چغلی، غیبت اور اس طرح کی بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں۔

 

ﷲ ربّ العزت نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے برگزیدہ بندے رسول اور نبی بنا کر بھیجے اور ان میں سے کئی پیغمبر علیہ السلام کو آسمانی صحیفے اور کتب بھی عطاء فرمائیں تاکہ، انسانوں کو اپنے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد معلوم ہو سکے۔ مگر بعض انسانوں نے اپنی عقل کو استعمال نہ کیا۔ نہوں نے تمام حقائق معلوم ہو جانے کے باوجود اپنے لئے مجموعی طور پر تباہی کا راستہ ہی اختیار کیا۔ی ہی وجہ ہے کہ، آج برے طریقوں کو اپنانے والے اکثریت میں موجود ہیں۔ لیکن اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔ لیکن ہدایت کی تمنا رکھنے والوں کے لئے انسانیت کا مکمل ضابطۂ حیات قرآن و سنت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

 

نیک بننے کے لئے اول شرط ایمان ہے۔ جب تک کلمۂ طیبہ پر ایمان نہیں اور جب تک آخرت کا یقین نہ ہو تو نیکی اور بھلائی کا بدلہ نہ ختم ہونے والی زندگی میں کیسے مل سکے گا؟ اس لئے غیب پر ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جب روز حساب کا یقین ہوگا تب ہی انسان برائی سے بچنے اور بھلائی کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔ انسان کتنی ہی گمراہی میں لتھڑا ہوا ہو جس وقت اس کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ، اب مجھے سیدھے راستے پر چلنا چاہیئے اور برائی کے راستے سے بچنا چاہیئے۔ پھر جب وہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو ﷲ تعالیٰ کی رحمت اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور ﷲ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں اور اس کی ایک کامیاب زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے جس میں دنیا میں بھی فلاح اور آخرت میں بھی کامیابی ہے-

 

اسی طرح جب ایک غیر مسلم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرکے دنیا میں آنے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔ تو وہ ہم جیسے کمزور ایمان والوں سے زیادہ بہتر ﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے۔

 

ہمیں ایمان کی قدر اس لئے بھی نہیں کہ، ہم تو مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔ اب ہم نمازیں قائم کرے نہ کرے، ہم مسلمان ہیں۔ جھوٹ بولے تب بھی ہم مسلمان ہیں۔ رشوت لے پھر بھی ہم مسلمان۔ غرض یہ کہ ہمیں وراثت میں دین اسلام مل گیا، اب ہم اس پر جس طرح چاہے عمل کریے۔ یہی ہماری بھول ہے۔ اس کی بجائے ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ، ہم کتنا اپنے خالق کے احکامات پر عمل کرتے ہیں

 

ہیں اور پیارے نبی محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کی کتنی اتباع کرتے ہیں۔ ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، ہم ہیپی نیو ایئر مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ذرا سچے دل سے اس بات پر غور کریں۔ ہمارا یہ عمل ﷲ اور اس کے پیارے حبیب محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کو پسند آئے گا؟ دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم اپنی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین اسلام کی طرف آرہے ہیں اور سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں،ان لوگوں سے اسلام کی حقانیت معلوم کی جاسکتی ہے۔

 

ہم سب مسلمان ایک ﷲ، ایک کلمہ، اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو حقیقی فلاح و کامیابی کے حصول کے لئے نفسانی خواہشیں ، کینہ ، بغض ، حسد کو ترک کرکے اپنی زندگی اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق گزارنے کا خود سے عہد کرنا چاہیئے۔ خود کو ایسا بنانا چاہیئے کہ، ہمارے الفاظ اور کردار سے کسی بھی انسان کی دل آزاری نہ ہو۔ ہمیں خود کو ایسا بنانا چاہیئے کہ، ہم دوسروں کو اسلام کی جانب متوجہ کرنے ، یعنی اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنی زندگی کو بطور آئیڈیل اور نمونہ پیش کرسکیں۔

 

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت عطاء فرمائے اور  اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

 

حافظ جمال الدین رحمانی

شعبہ تخصص فی کلیۃ الدعوہ جامعۃالرشید کراچی 

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs