مدارس نے ملت کو کیا دیا

March 14, 2022 2 years ago 1 Comment

ٹرین کا سفر کراچی کی طرف اور برتھ بھی نہ ملی تھی سیٹ پر کبھی بیٹھ کر اور کھبی ٹرین میں چل پھر کر رات گزار دی صبح نماز کے بعد ایک اسٹیشن پر چند منٹ کے وقفہ کے لیے ٹرین رکی تو وہاں سے ناشتہ لے کر ٹرین میں اپنی سیٹ پر واپس آ بیٹھا ٹرین بھی وقفے کے بعد اپنی منزل کی طرف چل پڑی

  

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد لیپ ٹاپ بیگ سے نکالا تاکہ باقی سفر کچھ مطالعہ کرتے ہی گزر جائے ۔

سامنے بیٹھے سیٹ پر ایک صاحب نے سلام کیا اور پوچھا بیٹا کیا کام کرتے ہو ؟

میں نے سلام کا جواب دیا اور کہا میں مدرسہ کا طالب علم ہوں

 

یہ سنتے ہی ان صاحب نے فوراً سے سوال کیا  بیٹا بتا سکتے ہو کہ مدرسہ نے ملت کو کیا دیا ہے؟؟

میں نے ان صاحب کی طرف دیکھا اور جھٹ سے سوال کیا آپ کیا کام کرتے ہیں ؟ ان صاحب نے جواب میں کہا میں انجنیئر ہوں ۔

میں نے اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے کچھ نا کچھ واقفیت تو آپ رکھتے ہونگے

 

اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو تاریخ کے صفحات بتائیں گے کہ  جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تو اس وقت دو طبقے جو ملت کو سہارا دینے کے لئے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

 

ان میں سے ایک طبقہ علماء کرام کا تھا جس نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے اور اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا، اور کائنات کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک مشکل کام کسی سے مانگنا بھی اس دین کے لیے قبول کیا ،چندے مانگے، گھر گھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں، زکوٰۃ وصدقہ کے لیے دست سوال دراز کیا اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہو کر عوامی تعاون کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے آثار کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا۔ انہوں نے ایک ایک دروازے پر دستک دی، سر پر چنگیر رکھ کر گھر گھر سے روٹیاں مانگیں،  حکومت کی طرف سے نہ کوئ وظیفہ مقرر کیا گیا اور نہ ہی کوئ تعاون کیا گیا۔  اس دین کو باقی رکھنے کے لئے اپنی عزت نفس کی پروا نہیں کی، طعنے سنے ، بے عزتی برداشت کی  لیکن قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کیلئے سب کچھ برداشت کر لیا

 

اور دوسرا  طبقہ وہ سامنے آیا جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کا وعدہ کیا، انگریزی اور جدید زبانوں کی تعلیم اپنے ذمے لی۔ اس طبقہ کو اس کام کے لیے ریاستی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور انہوں نے قومی خزانے کے کھربوں روپے خرچ کر ڈالے۔ اس طبقہ کو سرکاری وسائل میسر تھے، ریاستی تعاون پورا پورا حاصل رہا

 

اب اگر critical analysis کیجیۓ تو یہ بات ہر عقل رکھنے والے پر روز روشن کی طرح آیاں ہو جائے گی کہ اس طبقہ جس کو ریاست کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اس نے ملت کو کیا دیا ؟

 

اور مدارس جس کو ریاست کی پشت پناہی تو کیا حاصل بلکہ الٹا ریاستی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ریاست کی طرف سے ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے ملت کو کیا دیا۔؟

 

اگر اس طبقہ کو دیکھیں جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمّہ داری اٹھائ تو وہ طبقہ قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آج کی قوموں کے برابر نہ لا سکے اور آج اپنی ناکامی کی ذمہ داری مولوی کے سرتھوپ کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں آج کی اجتماعی دانش سے سوال کرتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور یہ فیصلہ کرے کہ نااہل کون ثابت ہوا اور اپنی ذمہ داری کس نے پوری نہیں کی؟ اس کے بارے میں ان سے پوچھیے جنہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس کے لیے سرکاری خزانے کے کھربوں روپے اب تک انہوں نے خرچ کر ڈالے ہیں۔

 

دوسرا طبقہ مدارس ہیں جنہوں نے دینی تعلیم کی ذمّہ داری اٹھائ

آج اگر ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، قرآن وسنت کی راہ نمائی لوگوں کو میسر نہیں ہے اور اسلام کی آواز نہیں لگ رہی تو مدارس مجرم ہیں ۔۔

مدارس نے جو ذمہ داری اٹھائ اس کو پورا نبھایا اور ملت کو دین دیا

 

امت کی تعلیمی حالت کو پروان چڑھانے، قوم وملت کو عزت وشرافت اور باوقار زندگی عطا کرنے اور ملک کی تعمیر وترقی کو فروغ دینے میں مدارسِ دینیہ نے اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔

اگر امت کو مساجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام کی ضرورت ہے تو امام میسر کیا ، اگر امت کو  قرآن کریم کی تعلیم کے لیے قراء کی ضرورت تو مدارس نے امت کو قرّاء فراہم کیے ، اگر امت کو رمضان میں قرآن سنانے کے لیے حفّاظ کی ضرورت تو مدارس نے امت کو حفّاظ فراہم کیے ، اگر امت کو جمعہ پڑھانے کے لیے خطباء کی ضرورت تو مدارس نے امت کو خطباء دیے ، اگر امت کو مسئلہ بتانے والے مفتیان کرام کی ضرورت تو مدارس نے امت کو مفتیان کرام فراہم کیے ، دینی راہ نمائی دینے کے لیے علماے کرام سے ملک کا کوئی گوشہ خالی تو نہیں؟  میدان جنگ میں کفر کے خلاف صف آرا ہونے والے مجاہدین بھی ان مدارس سے آپ کو مل رہے ہیں ۔

 

اس سے اگلی بات کہ مدارس نے کیا دیا ؟؟

اس تناظر میں ان دینی مدارس کی اگر معاشرتی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ مدارس نے ملت کو کیا کچھ دیا ہے ۔

 

1: مدارس ملک کے لاکھوں نادار افراد کو نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور کرتے ہیں بلکہ ان کی ضروریات مثلاً خوراک، رہائش، علاج، اور کتابوں وغیرہ کی کفالت بھی کرتے ہیں۔

 

2: مدارس معاشرہ میں بنیادی تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں معقول اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

 

3:مدارس قرآن و سنت کی تعلیم اور دینی علوم کی اشاعت و فروغ کا باعث بنتے ہیں۔

 

4:مدارس عام مسلمانوں کو عبادات، دینی رہنمائی، اور مذہبی تعلیم کے لیے رجال کار فراہم کرتے ہیں۔

 

5: مدارس عام مسلمانوں کے عقائد، عبادات، اخلاق، اور مذہبی کردار کا تحفظ کرتے ہیں اور دین کے ساتھ ان کا عملی رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

 

6: مدارس اسلام کے خاندانی نظام اور کلچر و ثقافت کی حفاظت کر رہے ہیں، اور غیر اسلامی ثقافت و کلچر کی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے مضبوط حصار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

7: مدارس اسلامی عقائد و احکام کی اشاعت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کا جواب دیتے ہیں۔

 

8: مدارس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقائد و احکام سے انحراف اور بغاوت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی ’’راسخ العقیدگی‘‘ کا تحفظ کر رہے ہیں۔

 

9: مدارس مادہ پرستی، مفادات، خود غرضی، اور نفسانفسی کے اس دور میں قناعت، ایثار، اور سادگی کی روحانی اقدار کو مسلمانوں کے ایک بہت بڑے حصے میں باقی رکھے ہوئے ہیں۔

 

10: مدارس وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے مکمل اور محفوظ ذخیرہ کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں بلکہ سوسائٹی میں اس کی عملی تطبیق کا نمونہ بھی باقی رکھے ہوئے ہیں۔ تاکہ نسل انسانی کے وہ سلیم الفطرت لوگ جو ’’عقل و خواہش‘‘ کی مطلق العنانی کے تلخ اور تباہ کن معاشرتی نتائج کو محسوس کرتے ہیں اور جن کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،

 

انہیں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس طرح یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ پوری نسل انسانی کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔

 

 

 

03356366740

ربیع احمد بن اقبال احمد

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs