اسلام کی وسعت اور انسان کی میانہ روی

اسلام کی وسعت اور انسان کی میانہ روی

March 28, 2022 2 years ago 3 Comments

              اسلام جو اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ حضرت انسان کیلئے دین ہے ،وہ اپنی اصل  صورت  اور منہج میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں مرغوب اور انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہے۔

 

            دین اور انسان کی طبیعت کی ہم آہنگی یہ دونوں فطری امر ہیں ۔چونکہ دونوں یعنی دین اور انسان کا واضع اور خالق ایک ہی ہے تو یہ لازمی امر ہے کہ دونوں میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہو۔

 

اب دین کیا چیز ہے؟

            دین خالق کا وہ وضع کردہ نظام ہے جو انسان کی  پوری دنیوی اور اخروی زندگی کی سعادت کا کفیل ہے۔

یہاں دنیوی زندگی کے مقابلے  میں دینی نہیں بلکہ اخروی زندگی ہے ۔کیونکہ دنیا کا مقابل آخرت اور دین کا مقابل لادینی ہے۔

 

              اب دین کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا وہ نظام جو دنیوی اور اخروی سعادت کا کفیل اور ضامن ہے۔

تو اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جوخوبصورتی اور جمال دیا ، وہ عین حضرتِ انسان کی جمالیاتی فطرت  اور اس کے ہم آہنگ ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :  فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا ۔یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر انکی خلقت ہوئی ہے۔

نیز فرمایا :ما جعل علیکم  فی الدین من حرج۔تمہارے دین میں ہم نے تنگی نہیں رکھی

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بعثتُ بالحنیفیۃ السمحۃ۔مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسی شریعت دی جس میں باطل سے علیحدگی اور اسکے اندر خوبصورتی  ہے۔

  اور دین کے بارے میں فرمایا کہ: اس میں وسعت ہے ،جو کہ انسانی طبیعت سے فطری طورپر ہم آہنگ چیز ہے۔

 

                  تو امت کی وسعیت  اور دین کی سماحت ، یہ دو ایسے خوبصورت وصف ہیں، جنہیں اہلِ علم کا فرض ہے کہ وہ انسانیت کے سامنے خوب بیان کریں ۔بڑوں کا فرض ہے کہ وہ چھوٹوں کے سامنے بیان کریں ۔مردوں کا فرض ہے کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کریں ۔

یعنی ہماری نسل در نسل بڑوںکا کام یہ ہے  کہ وہ آنے والی نسل کو اس چیز کی تربیت دیں کہ انسان کی فطرت کے  ہم آہنگ نظام حیات ہے اسی کا نام دینِ اسلام ہے۔

 

              اب اللہ تعالیٰ جب قرآن حکیم میں یہ فرماتے ہیں کہ : ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا۔تو میانہ روی وسعت ہوا اور یہ کہ تمہارے  دین کواللہ تعالیٰ نے حنیفیت سمحاء بنایا ہے جس کے اندر کمال درجہ کا  جمال ہے اور کسی قسم کی تنگی  ہی نہیں ، تو اب اس کا کیا مطلب ہے؟

تو جہاں تک وسطیت کا سوال ہے تو اسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں بیان کیا : وکذالک جعلناکُم امۃ وسطا۔

تو وسطیت امت کے اندر ایک ایسا محمود وصف ہے جو مطلوب ہے ، اور غرض یہ ہے’’لتکونوا شہدا علی الناس‘‘  تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔

 

                  تو یہ امت وسط بھی ہے اور یہ امت گواہ بھی ہے۔گواہ اس بات کی کہ یہ سابقہ امتوں پر گواہی دے گی کہ ان لوگوں نے اپنے اپنے انبیاء کی اور اپنے اپنے شرائع کی کس قدر اتباع کی اور کس قدر اپنے انبیاء علیہم السلام کی اطاعت نہ کی اور یہ بھی کہ کس قدر نافرمانی کی۔اب یہ شہادت تو امت دے گی اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان کے بعد۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو سابقہ اقوام کے جو احوال بتائے تو وہ ایسے نہیں بتائے کہ قصے کہانیاں ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ امت، ذمہ دار امت ہے اور یہ امت ان پر گواہ ہے۔

             اور آگے فرمایا کہ :تمہیں امت وسط بنایا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول علیہ السلام تم پر گواہ ہوں۔

اب امت کی گواہی کا تو ہم نے ذکر کیا۔رسول اللہ کیا گواہی دیں گے؟

وہ امت کی استقامت کی گواہی دیں گے کہ میری امت نے کس حد تک شریعت کو اپنایا۔ کس قدر قرآن کریم کی تعلیمات کی اپنی عملی زندگی میں تطبیق کی؟

تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بار ے میں یہ شہادت ہوگی جیسا کہ قرآن نے نقل فرمایا کہ رسول فرمائیں گے:

’’اے میرے پروردگار !ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا۔میری اس قوم نے اس قرآن کو ( جسے آپ نے نازل کیا تھا ۔جو ان کی زندگی کا نصب العین  قراردیا)انہوں نے اسے چھوڑدیا ۔‘‘

 

اب وسطیت کیاہے؟

               وہ اس کا اعتدال اور میانہ روی ہے جوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن کے ذریعے اور رسول اللہ نے اپنی سنت کے ذریعے امت کو اس پر ڈالا ۔

تو یہ وسطیت امت کی کیاہے؟

الوسط  ہو الخیار فی کلام العرب۔

جب کسی چیز کو  وسط کہاجائے کہ یہ چیز وسط ہے ۔ وہ اپنی نوع میں سب سے بہترین قسم ہوتی ہے۔درمیان والی چیز ہمیشہ سب سے بہتر ہوتی ہے۔

 

 

             اسی طرح وسط اگر کوئی رائے ہو، عقیدہ ہو، کوئی عمل ہو ۔تو اس عمل میں وسطیت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں شدت نہیں، اس میں  بیجانرمی نہیں ۔اس میں نہ افراط ہے اور نہ اس میں تفریط بلکہ ہم سے پہلے دو امتیں یہود اور …

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs