رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت

رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت

March 7, 2022 2 years ago 5 Comments

رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل سر زمین عرب کو جلی ہوئی زمین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔صحراؤں میں انسان نما جانور رہتے تھے۔ جو بات کا بتنگڑ بنانے میں دیر نہیں کرتے تھے۔

 

بلکہ فساد و خون ریزی ان کی سرشت کا حصہ بن چکی تھی۔ قبیلہ وار جنگیں ہوتی جو چالیس چالیس سال تک جاری رہتی انسان، انسان کے خون کا پیاسا تھا۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا انکی قبائلی تہذیب کا حصہ تھا۔عورت کو اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ اور اس کے بدن کو فقط ایک آلہ کار تلذذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔جاہلانہ رسومات،خود ساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اور تہذیبی و اخلاقی تنزلی اپنے عروج پر تھی۔ہر طرف فتنہ وفساد کا تنور دہک رہا تھا۔

 

غرض یہ کہ ہر طرف کفروشرک کی آندھیاں چل رہی تھی۔کہیں ستاروں کی پوجا ہو رہی تھی۔ تو کہیں آتش پرستی سے قلوب و اذہان بھسم کیے جا رہے تھے۔ گویا انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ رب کائنات کی رحمت کو جوش آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی سر زمین سے کہ جہاں اللہ کا گھر اس کے خلیل نے تعمیر کیا تھا اور دعا بھی کی تھی ۔اے ہمارے رب ان کے لیے انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیجیے جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت سیکھاۓ۔اسی طرح دیگر انبیاء کرام نے بھی بشارتیں دی تھیں کہ ایک رسول رحمت آنے والے ہیں۔تو وہ ابر رحمت قریش کے سردار عبد المطلب کے گھر حضرت عبداللہ کی بیوہ حضرت آمنہ کے بطن سے ہویدا ہوا

 

اور اسی کی پیدائش پر رب کائنات نے یہ معجزہ دکھایا کہ نور کی تجلیات وعرفان سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔بیت اللہ میں رکھے گئے بت سرنگوں ہو گئے۔آتش کدہ ایران جو صدیوں سے روشن چلا آرہا تھا بجھ گیا۔اور پوری کائنات کو یہ پیغام ربانی دیا گیا کہ اب وہ ہستی کائنات میں تشریف لا چکی ہے۔ جو ہر قسم کی شرک و ضلالت کو اپنے پاۓ استحقار تلے روندنے والی ہے۔عبدالمطب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔وہ اپنے حسین و جمیل پوتے کو لیے بیت اللہ میں آۓ اور ولادت کا اعلان کیا

 

تو لوگوں نے پوچھا کہ بچے کا نام کیا رکھا ہے۔ تو جناب عبد المطلب نے برجستہ کہا "محمد" تو سب لوگ حیران ہو گے کیوں کہ یہ نام عرب میں مانوس نہیں تھا۔تو عبدالمطلب نے کہا کہ اس نام کے معنی ہیں بہت ذیادہ تعریف کیا گیا۔یہ نام اللہ نے رکھوایا ہے تاکہ تا قیامت جب اللہ کا نام بلند ہو گا تو اس کے محبوب کا نام بھی بلند ہوتا رہے گا۔تو ایسے حالات میں رب کائنات نے انسانیت پر احسان فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ جس کا اعلان رب کائنات نے ان الفاظ میں فرمایا : وما ارسلناك الا رحمة للعالمين.جس طرح رب ذوالجلال تمام لعالمین کے رب ہیں تو ان کے لیے سرکار دوعالم بھی رحمت فرمانے والے ہیں۔

 

جب کوئی چیز اللہ کی ربوبیت سے باہر نہیں تو آقا مدنی کی رحمت سے کیسے باہر ہو سکتی ہے۔گویا مالک کل فرماتے ہیں کہ ربوبیت میری صفت ہے اور رحمت بھی میری ہی صفت ہے۔اے میرے لاڈلے محبوب اگرچہ رحمت بھی میری صفت ہے میں رحمن ہوں میں رحیم ہوں۔ لیکن میری اس صفت رحمت کا مظہر آپ ہیں۔میں نے اپنی رحمت کو آپ کی صورت میں ڈھال دیا ہے۔اس لیے میں نے آپ کا رحمت قرار دیا ہے اور چونکہ آپ میری صفت کا مظہر ہیں۔اس لیے آپ تمام کائنات ساری خدائی سب عالموں پر رحم فرمانے والے ہیں۔اے میرے محبوب! جس کا میں رب ہوں،اس پر آپ رحمت فرمانے والے ہیں

 

تو پتا چلا کہ آقا مدنی کی رحمت کے دائرے سے کوئی باہر نہیں وہ انسان ہو یا حیوان،جن ہو یا فرشتے،عالم تحت ہو یا عالم فوق، عالم ظاہر ہو یا عالم باطن لوح و قلم ہو یا عرش و کرسی میرے آقا سب پر رحم فرمانے والے ہیں۔آپکی رحمت کے خزانے اور امت کے غم خوار کے دربار میں دوست ،دشمن اپنا،پرایا عورت،مرد بوڑھے،بچے کافر،مسلم آقا و غلام انسان ،حیوان کائنات اور تمام جہانوں کا ذرہ ذرہ ہر ایک صنف ہستی برابر کے حصے دار ہیں ۔آپ کی رحمت تمام العالمین تمام جہانوں اور ہر عہد کو محیط ہے۔کفار و مشرکین نے مکہ میں وہ کونسا ظلم تھا جو آپ اور آپ کے صحابہ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا ہو ،آپ کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں،آپ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی،

 

آپ کے راستے میں کانٹے بچھاۓ گے،آپ کا گلا گھونٹا گیا،نماز کی حالت میں آپ پر اوجھڑی رکھ دی گئی،تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ اور آپ کے حاندان کو محصور رکھا گیا جس میں ببول کے پتے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی،طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی جس سے آپ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہو گئے آپ کی بیٹیوں کو طلاقیں دی گئی ،آپ کو اپنے وطن مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا ۔آپ مدینہ تشریف لے گے وہاں بھی سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیا گیا ۔لیکن اس سب کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر انتقام کے بجائے رحمت للعالمین نے سب کے ساتھ رحم والا معاملہ کرتے ہو سب کو معاف کر دیا۔آج موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔

 

اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے ہم رحمت للعالمین کی سیرت و کردار اور اخلاق کو اپنی زندگیوں میں لاۓ تب جا کر ہمارے معاشرے سے ان سب برائیوں کا خاتمہ ہو گا۔ مولائے کائنات ہم سب کو رحمت للعالمین سے سچی محبت نصیب فرمائے آمین۔ ۱۸ ذو الحجہ یوم شہادت خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی ماہتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن ستاروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نام بہت نمایاں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے جود و سخا،حلم و عطاء،عشق مصطفوی،جذبہ و شوق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ تعلق ایک ایسی درخشندہ کہانی ھے جو مخالف موافق تمام حلقوں میں مسلم ھو چکی ھے۔آپ کا اسم گرامی " عثمان" کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمرو اور لقب ذوالنورین ہے۔ آپ کے والد کا نام عفان ابن ابی العاص اور والدہ کا نام اروی بنت کریز ہے۔

 

آپ نے نو شادیاں کیں آپ کے سب سے پہلی شادی دختر رسول حضرت رقیہ سے ہوئی انکے انتقال کے بعد دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے ہوئی ان کے انتقال کے بعد باقی دیگر سے شادیاں ہوئی۔ آپ کے دس بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں۔آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔سیدنا عثمان غنی واقعہ فیل کے چھ برس بعد یعنی 577ء میں طائف میں پیدا ہوئے اور آپ کا شمار بنی امیہ کے معززین میں ہوتا تھا۔آپ نے دور جاہلیت میں ہی رائج تمام مروجہ علوم پر عبور حاصل کر لیے تھا اور آپ کا شمار قریش کے ان چند افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپ نے اپنے خاندانی پیشے تجارت کو ہی اپنا روز گار بنایا آپ ابتدا ء میں اپنا سامان تجارت لے کر دیگر ممالک کا سفر کرتے تھے۔آپ ابتدا ء سے ہی اپنی فیاضی اور سخاوت کی بناء پر شہرت رکھتے تھے

 

اور اسی لیے " غنی" کے نام سے بھی مشہور تھے۔بعثت نبوی کے آغاز میں سیدنا صدیق اکبر کی تحریک پر اسلام قبول کیا اور دین اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا مال واسباب سب دین اسلام اور مسلمانوں پر قربان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں صرف میٹھے پانی کا ایک ہی کنویں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا تو حضرت عثمان غنی رضی نے وہ کنویں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثاروں سے چند کی اپیل کی تو وہاں بھی عثمان غنی سب پر بازی لے گے نو سو اونٹ،تین سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار اللہ کی راہ میں دے دیے۔آپ کی وجہ سے ساڑھے چودہ سو صحابہ کرام کو جنت کی بشارت سنائی گئی۔ آپ رضی اللہ عنہ حیاء کے ایسے پیکر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 

میری امت میں عثمان سے بڑھ کر کوئی حیاء والا نہیں۔خوف خداوندی کا یہ عالم تھا کہ اکثر وبیشتر آپ پر لرزہ طاری ہو جایا کرتا دوران تلاوت جب عذاب والی آیت آتی خشیت خداوندی کی وجہ سے بے تحاشہ رونا شروع کر دیتے۔آپ ہمہ وقت موت کو یاد کر کے روتے اکثر وبیشتر جنت البقیع تشریف لے جاتے اور زاروقطار رویا کرتے تھے۔آپ تمام صحابہ سے زیادہ نبی کریم سے مشابہ تھے اور اخلاق میں بھی نبی کریم کے مشابہ تھے۔آپ کو کاتب وحی ہونے کا شرف بھی حاصل ھے۔آپ جامع قرآن اور حبیب الرحمٰن بھی ہیں۔آپ کے حق میں اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمائیں کرتے تھے۔جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ھوا تو آپ نے عشرہ مبشرہ میں سے چھ نامور شخصیات حضرت عثمان غنی،حضرت علی المرتضٰی،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت سعید بن زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو نامزد کر کے انہی میں سے خلیفہ کے انتخاب کا حکم دیا تو عبدالرحمن بن عوف نے خفیہ راۓ شماری کے ذریعے حضرت عثمان غنی کو خلیفہ نامزد کر دیا۔آپ کو شروع میں 22 لاکھ مربع میل کے ایسے خطے پر حکومت کرنی پڑی جس میں بیشتر ممالک فتح تو ہو چکے تھے لیکن وہاں مسلمان مستحکم نہ ہوۓ تھے۔خطرہ تھا کہ یہ ریاستیں دوبار کفر کی آغوش میں چلی جاۓ گی

 

۔لیکن آپ نے 12دن کم 12 سال تک 44 لاکھ مربع میل کے وسیع وعریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کی۔آپ کے دور خلافت کے پہلے چھ سال فتوحات اور کامرانیوں کے ایسے عنوان سے مزین ہیں۔جن پر اسلام کی پوری تاریخ فخر کرتی رہے گی۔آپ نے فوجوں اور عسکری قوتوں کو جدید بنیادوں پر استوار کیا تھا۔آپ ہی کے دور میں حضرت امیر معاویہ نے اسلام کا پہلا بحری بیڑا تیار کر کے بحر اوقیانوس میں اسلام کا عظیم لشکر اتار دیا تھا۔اسی طرح پاپاۓ روم پر سکتہ طاری کر کے آپ کی فوجوں نے فرانس اور یورپ کے کئی ملکوں میں اسلام پہنچا دیا تھا۔ہندوستان اور افریقی ممالک میں محمدی سورج کی کرنیں بھی آپ ہی کے دور میں پہنچی تھیں۔اسلامی فوجوں نے عثمانی دور ہی میں سندھ،مکران،طرستان،اور متعدد ایشیائی ممالک فتح کیے تھے۔آپ نے ہی سب سے پہلے لوگوں میں جاگیریں مقرر فرمائیں۔اور 44 لاکھ مربع میل میں تمام آبادکاروں کو زمین کے مالکانہ حقوق کے پروانے جاری کئے۔جانوروں کیلئے چراگاہیں قائم کیں۔

 

جمعہ کے دن اذان اول دینے کا حکم صادر فرمائیں۔مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر فرمائیں۔آپ ہی نے سب سے پہلے پولیس اور اس کے عہدیدار مقرر فرماۓ۔آپ ہی نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قرات قرآن پر جمع فرمایا۔آپ ہی نے لوگوں کو خود زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا۔آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر پر بھی خصوصی توجہ دی اور مسجد نبوی کی کچی دیواروں کی جگہ منقش پتھروں کی دیواریں تعمیر کروائیں۔آپ نے احتساب کا نظام بھی قائم کیا۔آپ کا 12 سالہ دور حکومت عدل وانصاف،اخوت ومساوات اور رعایا پروری کا نمونہ تھا۔آپ کی فتوحات دیکھ کر یہودو مجوس برداشت نہ کر سکے

 

تو انہوں نے منافقون کا کا ایک ایسا لشکر تیار کیا جو سیدنا عثمان غنی پر اقرباء پروری اور خیانت کا الزام لگانے لگا۔اور طرح طرح کی سازشیں گھڑنے لگا ۔چنانچہ 35 ہجری ذیقعدہ کے پہلے عشرے میں ان منافقین باغیوں نے سیدنا عثمان غنی کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور دوران محاصرہ آپ کا کھانا پینا چالیس دن تک بند رکھا۔صحابہ کرام آپ کے پاس آتے اور فرماتے امیر المومنین آپ اجازت دیں ھم ان باغیوں کے خلاف تلوار اٹھاۓ تو آپ نے فرمایا میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ غنی وہ ھے جس نے اپنا ہاتھ اور اپنی تلوار روک لی۔ چنانچہ 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی کو 18 ذالحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔آپ نے اپنی جان قربان کر دی لیکن اسلام کے مرکز کو خون ریزی سے بچا لیے-

 

آج کے اس گے گزرے دور میں ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم سیدنا عثمان غنی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عزت ناموس کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس ہستیوں کی سیرت کو پڑھے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور صحابہ کرام کے نظام حکومت کو نافذ کرنے کی کوشش کرۓ تب جا کر ھمارے معاشرے میں امن وامان ھو گا-

 

اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کی سچی محبت نصیب فرمائے آمین۔ تہذیب الحسن ھاشمی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs