انقلابی تڑپ

March 14, 2022 2 years ago 1 Comment

9 نومبر 1877 ٕ کو سیالکوٹ کی دھرتی میں آنکھ کھولنے والے اس نومولود کو اندازہ نہ تھا کہ قدرت اس کے زریعے کتنے مردہ دل انسانوں کی آنکھیں کھلوائے گی۔ ابتدائی تعلیم ایک مکتب سے حاصل کرنے کے بعد یہ بچہ انگریزی تعلیم کے لیے سیالکوٹ کے ہی ایک اسکول میں اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام حاصل کر گیا۔

 

اسکاٹش مشن کالج سیالکوٹ میں عربی و فارسی کے مشہور استاد اور علوم شرقیہ کے مایہ ناز پروفیسر سید میر حسن صاحب کے زیر تربیت شعر و شاعری کی صلاحیتیں ابھرنے لگیں۔ انٹرمیڈیٹ اور بی،اے کا امتحان اول درجے میں پاس کیا۔ ایم،اے کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد پہلے اورنٹییل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر پھر گورنمنٹ کالج میں انگلش اور فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

 

1908 ٕ میں جب جوانی عروج پر تھی اور اچھی نوکری بھی تھی ایسی حالت میں عام انسان اپنے بال بچوں میں ہی رہنا پسند کرتا ہے مگر اس شاہین سے اللہ نے مغربی افکار و نظریات کا قلعہ قمع کرانا تھا اور سوئی قوم کو بیدار کرنا تھا اس لیے آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے وہاں پر بھی نمایاں صفات و خصوصیات کے حامل رہے اور کئ اعزازات سے نوازے گئے۔ وہاں پر آپ کو معرب کو قریب سے دیکھ کر اس کو سمجھنے کا موقع ملا۔

 

آپ نے اپنی شاعری کے زریعے قوم کو سستی و غفلت کی اتار پھینکنے پر آمادہ کیا۔ تاکہ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا لیں۔  آپ کا مقصد مسلمانوں کو سادگی، بے ریائی، شجاعت، ہمت و استقلال، خود اعتمادی الغرض ان تمام صفات سے متصف کرانا تھا جن سے اسلاف متصف تھے۔ وہ عملی زندگی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے ہاں بے کار شخص کی کوئی اہمیت نہیں تھی اگرچہ وہ تندرست و توانا ہو۔ مگر وہ اس معزور شخص کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو کچھ کرنے کا شوق وجذبہ رکھتا ہو۔ اسی لیے اقبال نے کہا

یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے

 

جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے

انہوں نے اپنے کلام کے زریعے لوگوں کے دلوں سے مایوسی و ناامیدی کے بت توڑ کر امید مسرت کی فضا قائم کی۔ ان کے نزدیک مصائب و ناکامیاں، فتوحات و کامیابیوں کا زینہ تھیں۔ وہ قوم کو زہنی غلامی سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔

 

اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ اقبال کو نہ انگریز نے سمجھا اور نہ ہی قوم نے۔ اگر انگریز سمجھ لیتا تو اقبال کو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا۔ اور اگر قوم سمجھ لیتی تو کبھی غلام نہ رہتی۔

 

آج اگر ہم بھی اقبال کی اس انقلابی تڑپ کو محسوس کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو ترقی ہمارے قدم چومے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs