ذمہ دار کون

March 16, 2022 2 years ago 1 Comment

بندہ کرے تو کیا کرے۔۔۔ آج تیسرا دن ہے بجلی کا میٹر کٹے ہوئے۔ ہمسایوں کے گھر سے پانی بھر بھر کے تنگ آگیا ہوں۔ سارا دن مزدوری کرکے آو تو بمشکل ہی گھر کا راشن پورا ہوتا ہے،کبھی دہاڑی لگتی ہے تو کبھی نہیں۔ بجلی و گیس کے بل ہر ماہ خون چوس لیتے ہیں، ماں جی کی روزانہ چار سو روپے کی دوا کا خرچ علیحدہ، اوپر سے مالک مکان نے پریشان کر رکھا ہے دو ماہ گزر گئے ابھی تک کرایہ نہیں دیا ، بچوں کے تعلیمی اخراجات ختم ہونے کو ہی نہیں آتے، کبھی کاپی نہیں ہے تو کبھی کتاب، کبھی وردی کا مسلئہ ہے تو کبھی فیس کا، مہنگائی اتنی ہے کہ  مرنے کے لیے زہر خریدنے کے پیسے بھی نہیں، بیوی کے مطالبات ٹالتے ہوئے آج دو سال گزر گئے بیچاری نے اب تو خواہشات کا اظہار کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ باتیں کہتے ہوئے یوسف چاچا کی آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے۔

چاچا جی حوصلہ رکھیں۔۔۔۔میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ مگر چاچا جی ایک بار پھر شروع ہو گئے، اور دل کھول کر حکومت کو گالیاں دینے لگے۔

یہ صورتحال صرف یوسف چاچا کی ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو عوام میں شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف اگر حکمرانوں کی سنی جائے تو خوشحالی کے گیت گا رہے ہیں اور اپنی گوڈ گورننس کے اشتہار چھاپ رہے ہیں کہ سب اچھا یا اچھا ہو جائے گا یا حوصلوں و تسلیوں اور صبر وتحمل کے فضائل سنا کر بری ہو جاتے ہیں۔

آخر اس ساری صورتحال میں قصوروار اور ذمہ دار کون ہے؟ کیا سارا قصور حکومت کا ہے؟ کیا ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی،اگر ہوتی ہے تو ہم نے کتنی ذمہ داری نبھائی؟

دراصل ہم ہر غلطی کا قصوروار دوسروں کو بنانے کے عادی بن چکے ہیں۔ کیا ہم ہر حکومت کو برا بھلا نہیں کہتے؟ کیا ہم نے احکم الحاکمین کی لگائی ہوئی فقط نماز والی ذمہ داری کو بھی پوری طرح ادا کیا؟ ہمارا معاملہ صرف ان حکمرانوں سے نہیں بلکہ اس ذات سے ہے جو سب حکمرانوں کی حاکم ہے۔

 

آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے عوام کے اعمال ہی حکمران بناتے ہیں۔ لہذا اس صورت حال کے اصل ذمہ دار "میں" اور"آپ" ہیں۔ اگر ہم عوام اپنی ذمہ داری نبھائیں گے تو ان شاءاللہ ان حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی توفیق دے سکتے ہیں۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs