آپ پریشان کیوں ہیں

March 16, 2022 2 years ago 2 Comments

دنیوی زندگی خوشی اور غم سے مرکب ہے۔یہاں کی خوشی عارضی ہے تو پریشانی اور تکلیف بھی وقتی ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کو زندگی میں نشیب و فراز سے واسطہ نہ پڑا ہو۔

   دنیا کی زندگی امیر غریب،صحت مند بیمار، ہرشخص کی ہر حالت میں گزر ہی جاتی ہے۔ایک مسلمان کے لئے اہم ترین معاملہ آخرت کا ہے۔جب انسان کی نظر آخرت پر مرکوز ہو جاتی ہے تو پہر دنیا اور اس کے نشیب و فراز کی حیثیت ثانوی درجہ کی رہ جاتی ہے ۔

    وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان سے محروم ہیں جب انہیں کوئ پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اس کے ظاہری اسباب کے درپے ہو جاتے ہیں جبکہ صاحب ایمان کا معاملہ اس کے بر عکس ہے۔اس کا ایمان ہے کہ کوئ پتہ بھی حکم خداوندی کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا۔اگر کوئی نعمت مل جائے تو وہ اترانے کے بجائے شکر ادا کرتا ہے اور پریشانی و تکلیف پہنچنے پر صبر و تسلیم و رضا کا دامن پکڑ لیتا ہے۔

     اسلام اپنے پیروکاروں کو دنیا میں ملنے والی ہر پریشانی پر بے شمار اجر و ثواب کی بشارت سناتا ہے اور ہر حال میں تسکین آمیز تعلیمات سے نوازتا ہے۔

      حضرات انبیاء علیہم السلام جو روۓ زمین پر سب سے زیادہ مقدس اور اللہ کی محبوب ترین شخصیات ہیں ان کے مبارک حالات قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔ دین کی دعوت پر مخالفین کا برتاؤ،اپنوں کی بے اعتنائی،ظاہری اسباب و وسائل کا فقدان،پورا ماحول و معاشرہ مخالف لیکن اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق اور کمال روحانیت نے ان سب چیزوں کے باوجود انہیں قلبی سکون عطاء کیے رکھا۔

       آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی جن پریشان کن حالات کا مجموعہ رہی وہ محتاج بیاں نہیں۔سیرت طیبہ کا کونسا ورق ہے جو گونا گوں پریشان کن حالات کی خبر نہیں دیتا؟ ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ " اگر تمہیں پریشانیاں ستائیں تو اس وقت تم میری تکالیف کو یاد کر لیا کرو "

      اسی طرح خیر القرون سے تا ہنوز اسلاف کی زندگیاں پڑھی جائیں تو قدم قدم پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ دیکھائی دیتےہیں۔

       اسلامی تاریخ ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ جب ایسی مقدس ہستیاں پریشانیوں اور مصائب سے نہ بچ سکیں تو ہمارا شمار کس قطار میں ہے۔

        ہر انسان سوچے کہ پریشانی کے اوقات میں اگرچہ مجھے طبعی رنج پہنچ رہا ہے تاہم میری آخرت بن رہی ہے جیساکہ حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ " روز قیامت جب صابرین کو

        بے شمار اجر و ثواب سے نوازا جائے گا تو دوسرے لوگ خواہش کریں گے کہ کاش! ہمارے جسم کو قینچیوں سے کاٹا جاتا اور اس پر ملنے والی تکلیف پر ہم صبر کرتے تو ہمیں بھی یہ اجر و ثواب ملتا۔

         ایک مسلمان کا کام یہی ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ رہے اور خود کو اللہ کی رضا کے سامنے سرنگوں کر دے ۔یہی کمال عبدیت اور اسی میں راحت ہے۔

 

          اس لئے آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور حدیث شریف کے مطابق جو شخص دل میں آخرت کا غم سوار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیوی پریشانیوں اور غموں سے نجات عطاء فرما دیتے ہیں۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs